Fact Check: بھیڑ کی جانب سے عوامی جائیداد پر سنگباری والے ویڈیو میں دعویٰ غلط ہے کہ یہ کرناٹک کا ہے

۔ لوگوں کا گروپ، جس میں نمایاں طور پر ٹوپیاں پہنے ہوئے لوگ ہیں، ایک دوسرے پر چیختے ہوئے اور بسوں اور دیگر عوامی املاک پر پتھراؤ کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

Update: 2023-10-03 04:31 GMT

سرکاری بسوں اور دیگر سرکاری املاک کو ایک ہجوم کی جانب سے تباہ کرنے کا ایک ویڈیو اس دعوے کے ساتھ وائرل ہوا ہے کہ کرناٹک کے لوگ بسوں کو تباہ کر رہے ہیں کیونکہ بس کے کنڈکٹر نے بس کو نہیں روکا جب ایک مسلم خاتون نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ لوگوں کا گروپ، جس میں نمایاں طور پر ٹوپیاں پہنے ہوئے لوگ ہیں، ایک دوسرے پر چیختے ہوئے اور بسوں اور دیگر عوامی املاک پر پتھراؤ کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ دعویٰ تلگو میں کچھ اس طرح ہے: ’’ ఇది ఎక్కడో అమెరికా, పాకిస్తాన్, చైనా, జపాన్ దేశాలలో జరిగిందనుకునేరు. కానే కాదు. మన ప్రక్క రాష్ట్రం కర్ణాటకలో జరిగింది, అక్కడి కాంగ్రెస్ ప్రభుత్వం ఫ్రీ బస్సు ప్రవేశపెట్టింది కదా. ఒక ముస్లిం మహిళ బస్సు ఆపమంటే కండక్టర్ ఆపనందుకు ఇంతటి రాద్ధాంతం చేస్తున్నారు. ‘‘

جب اس کا ترجمہ کیا گیا تو یہ کچھ اس طرح ہے: ’’یہ واقعہ امریکہ یا پاکستان یا چین یا جاپان میں کہیں نہیں ہوا۔ یہ واقعہ کرناٹک ریاست میں پیش آیاہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، حکومت کرناٹک نے خواتین کے لیے مفت بس سروس متعارف کرائی ہے۔ اور جب ایک مسلمان خاتون نے بس کو روک کر اندر جانے کی کوشش کی تو بس کے کنڈیکٹر نے بس کو نہیں روکا۔ اس لیے ہجوم مشتعل ہوگیا اور اس نے بسوں پر حملہ کر دیا۔‘‘

Full View

فیکٹ چیک:

یہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا واقعہ دراصل، سال 2019 میں سورت، گجرات کا ہے۔

اس ویڈیو کے اسکرین شاٹ کو نکال کر جب ہم نے اس پر گوگل ریورس امیج کا عمل کیا تو ہمیں The Quint میں 05 جولائی 2019 کو شائع ایک آرٹیکل دستیاب ہوا۔

اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعہ گجرات کے سورت میں پیش آیاہے۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین ملک میں ہو رہی لنچنگ کے خلاف ایک ریلی نکالنا چاہتے تھے۔ لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔

اس کے بعد مشتعل ہجوم نے پولیس پر سنگباری کی اور عوامی جائیداد کو نقصان پہنچایا۔ اس آرٹیکل میں دکھایا گیا ویڈیو، وائرل ویڈیو سے ہو بہو مماثلت رکھتا ہے۔

اسی طرح، اے بی پی اسمیتھا کی جانب سے 05 جولائی 2019 کو ایک ویڈیو پبلش کیا گیا تھا جس میں ہجومی تشدد کے یہی مناظر دکھائے گئے ہیں۔ اس ویڈیو کی تفصیل میں دیا گیا ہے کہ: ’’ گجرات کے سورت میں ماب لنچنگ کے خلاف پرامن مظاہرے نے اچانک پرتشدد رخ اختیار کر لیا۔ ہجوم نے پتھراؤ کیا جس کے نتیجے میں پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔‘‘

Full View

اسی طرح اے این آئی کے 05 جولائی 2019 کو شائع آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ #Watch سورت: 4-5 پولیس اہلکار اس وقت زخمی ہوگئے جب لوگوں کو آج ناناپورا علاقہ میں ریلی نکالنے سے روکنے کے دوران جھڑپ ہوگئی۔ دفعہ 144 (4 سے زائد افراد کا ایک ہی جگہ جمع ہونے پر پابندی) اس علاقے میں نافذ کردی گئی ہے۔ ریلی کو اجازت نہیں دی گئی تھی۔ #گجرات

کئی فیکٹ چیکٹ تنطیموں نے اس ویڈیو کو ڈی بنک کیا ہے،اس ویڈیو کو ہریانہ میں اگست 2023 میں ہوئے تشدد کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔

اس لیے، ہجوم کی طرف سے پتھراؤ کرنے اور سرکاری املاک کو تباہ کرنے کا وائرل ویڈیو کرناٹک کا نہیں ہے بلکہ 2019 میں سورت، گجرات کا ہے۔ دعویٰ گمراہ کن ہے۔

Claim :  The video shows an incident in Karnataka, where the government is running a free bus service for women
Claimed By :  Facebook Users
Fact Check :  Misleading
Tags:    

Similar News