فیکٹ چیک: اترپردیش کے گاوں میں رات میں مسلم لڑکوں کا اسٹریٹ لائیٹ پر پتھراو کا ویڈیو فرقہ وارانہ دعوے کے ساتھ وائرل

اترپردیش کے واراناسی کے کوٹوا گاوں میں رات میں اقلیتی برادری کے چند لڑکوں کا اسٹریٹ لائیٹ پر پتھر پھینکے کا ویڈیو، علاقہ کے ہندووں کے گھروں کو نشانہ بنانے کے دعوے کے ساتھ وائرل کیا جارہا ہے

Update: 2025-03-12 17:37 GMT

اترپردیش کی اسپیشل ٹاسک فورس پولیس نے جون پور کی مسکان تیواری نام کی ایک نوجوان لڑکی کو اسلحہ کی برآمدی کے سلسلے میں لکھنو کے قیصر باغ بس اسٹانڈ سے گرفتار لیا۔ اسکے قبضہ سے اعشاریہ تین۔دو کیلیبر کے پستول برآمد کئے۔ پولیس کے مطابق، ملزمہ نے مبینہ طور پر میرٹھ سے اسلحہ حاصل کیا تھا اور جون پور کے شاہ گنج علاقہ میں ایک کریمنل ٹولی کو سپلائی کرنے جارہی تھی۔

پولیس نے بتایا کہ ملزمہ کا نام مسکان تیواری اور عمر 24 سال ہے، وہ جون پور کے سرپتہ پولیس تھان کی حدود میں واقع رودولی گاوں کی رہنے والی ہے۔ پوچھ تاچھ کے دوران مسکان نے بتایا کہ شبھم سنگھ نامی شخص مجرمین کی ٹولی چلاتا ہے اور اس کام کیلئے وہ دیہات اور معاشی پسماندگی کا شکار خواتین کو آسانی سے پیسہ کمانے کا لالچ دیکر انہیں اپنی ٹولی میں شامل کرتا ہے۔

اس درمیان، سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل کرتے ہوئے صارف دعویٰ کررہے ہیں کہ 'بتایا جارہا ہیکہ یہ ویڈیو بنارس کا ہے، جہاں کچھ کمسن لڑکے رات کے وقت ہندووں کے گھروں پر پتھراو کررہے ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی غزوہ ہند کی تربیت دی جارہی ہے۔اگر پولیس انکے خلاف کارروائی کرتی ہے تو جہادی اور بایاں بازو نظام کا طبقہ اس پر واویلا مچاتا ہے۔'

دعویٰ:

The video is being called from Varanasi where some radical kids are pelting stones on Hindu houses in the night. They are being trained from Childhood for Gajwa-E-Hind. If the police will take action against these people, Jihadi and Left ecosystem will start crying.

وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔

وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھیں،۔


فیکٹ چیک:

تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ پڑتال میں پایا کہ وائرل پوسٹ میں کیا گیا فرقہ وارانہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔

جانچ پڑتال کا آغاز کرتے ہوئے ہم نے سب سے پہلے موزوں کیورڈس کی مدد سے گوگل سرچ کیا تو ہمِیں 7 مارچ 2025 کا ٹائمس آف انڈیا کا آرٹیکل ملا۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہیکہ 'مخصوص سماج کے لڑکوں کی جانب سے واراناسی کے کوٹوا علاقہ میں پتھر بازی کا سی سی ٹی وی فوٹیج کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد لوہتا کی پولیس نے مقدمہ درج کرکے یہ پتہ لگانے کی کوشش کررہی ہیکہ یہ بچے اسٹریٹ لائِٹس کو نشانہ بنارہے تھے یا کچھ اور۔'


ابتدائی جانچ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے تجزیہ کے بعد پولیس نے 12 سے 15 سال کے لڑکوں کو گرفتار کرلیا۔ لوہتہ کے ایس ایچ او پروین کمار کے مطابق، گرفتاری کے بعد ان لڑکوں کو عدالت کے سامنے پیش کیس گیا اور عدالت نے انہیں رام نگر میں جوئینائیل کریکشن ہوم بھیج دیا۔

اس جانکاری کی مدد سے جب ہم نے اپنی تحقیق آگے بڑھائی تو ہمیں Reddit پر اس واقعہ کے بارے میں ایک پوسٹ ملا جس میں 'اناٹمی انویشک' نامی ایک صارف لکھا کہ 'پولیس کے بیان کے مطابق، 10 سے 15 لڑکوں کو پتھراو کرتے دیکھا گیا۔ یہ بچے اسٹریٹ لائیٹ کو نشانہ بناکر بجلی کے کھمبے سے بلب چرانا چاہ رہے تھے۔ پڑوسی ہندو[ابھی لاش سنگھ] نے گھبراکر پولیس میں شکایت درج کرائی۔'


ہم نے مزید سرچ کیا تو 'پنجاب کیسری' نامی ہندی نیوز پورٹل پر اس واقعہ کی رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ میں پوری تفصیل دی گئی ہے اور ساتھ میں واراناسی گومتی زون کی ایڈشنل ڈپٹی کمشنر آف پولیس نیتو کٹیعین [نیتو کڈیئن] نے بتایا کہ 'سی سی ٹی وی فوٹیج کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہیکہ نابالغ بچے بلب چوری کرنے کے منشا سے اسٹریٹ لائیٹ پر پتھر پھینکتے پوئے پائے گئے۔'


'یو پی تک' نامی میڈیا ادارہ کے انسٹاگرام اکاونٹ پر ہمیں نہ صرف اس معاملے کی پوری رپورٹَ ملی بلکہ ساتھ ہی اے ڈی سی پی نیتو کٹیعین کا بیان بھی ملا۔


کوٹوا گاوں میں ہندووں کے صرف 15 گھر ہیں، اس واقعہ کے بعد مقامی ہندووں کا الزام ہیکہ اس طرح کی کاروائی کرکے انہیں گاوں چھوڑنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔ اس واقعہ کے بعد پولیس اور سیاسی لیڈروں نے گاوں والوں سے بات چیت کی اور انہیں یقین دلایا کہ انتظامیہ اور پولیس انکے ساتھ ہے۔ گاوں والوں کو ماہ رمضان اور ہولی تہوار مل جل کر منانے پر زور دیا۔ لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن پایا گیا۔

Claim :  اترپردیش کے گاوں میں رات میں مسلم لڑکے ہندووں کے گھروں پر پتھراو کررہے ہیں
Claimed By :  Social Media Users
Fact Check :  Unknown
Tags:    

Similar News