فیکٹ چیک: کیرلہ میں برقعہ پوش خاتون کے حادثے کا ویڈیو مذہب کی بنیاد پرعمدا نشانہ بنانے کے گمراہ کن کا دعوے کے ساتھ وائرل
کیرلہ میں سڑک حادثے کا ویڈیو مسلم خاتون کوعمدا نشانہ بنانے کے دعویٰ کے ساتھ شئیر کیا جارہا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ملزم ڈرائیور بھی مسلم ہے

Claim :
برقعہ پوش خاتون کو جان بوجھ کر ان کے مذہب کی وجہ سے گاڑی سے ٹکر ماری گئیFact :
کیرلہ کا سڑک حادثہ کار ڈرائیور کی لاپرواہی کا نتیجہ تھا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ متاثرہ اور ملزم ڈرائیور دونوں مسلم ہیں
کیرلہ میں ایک سڑک حادثے کے بعد ایک ٹَیاٹو آرٹسٹ کو مبینہ طور پر ایک شخص پر ریوالور تاننے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا، حکام نے گرفتار شدہ شخص کی شناخت رابن جان کے طور پر کی ہے۔
پولیس کے مطابق، 19 اکتوبر کی رات ایارسٹو جنکشن کے قریب، جان، جب اپنی کار ہوٹل کے احاطے سے باہر نکال رہے تھے تو مبینہ طور پر ان کی گاڑی کی ٹکر ایک دوسری گاڑی سے ہوگئی جس کے بعد جان اور دوسری گاڑی میں موجود دو افراد کے درمیان لفظی جھڑپ ہوئی۔ ایف آئی آر کے مطابق، برہم جان نے اپنی کار میں رکھا ایک ریوالور نکالا، اور اسے مُتّتھارا کے ساکن ناسم الدین نامی شخص پر تان کر انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی۔
اس درمیان سوشل میڈِیا پر ایک تیز رفتار کار کے برقعہ پوش خاتون اور بچے کو کی ٹکر دینے کا سی سی ٹی وی ویڈیو وائرل کرتے ہوئے دعویٰ کیا جا رہا ہیکہ برقعہ پوش خاتون کو جان بوجھ کر اُن کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور اس میں کئے گئے دعوے کا اسکرین شاٹ نیچے ملاحظی کریں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے وائرل پوسٹ میں کئے گئے دعوے کی جانچ پڑتال میں پایا کہ وائرل ویڈیو اپریل 2025 میں کیرالہ کے ضلع ملاپّورم کے کوٹکّل میں پیش آنے والے سڑک حادثے کو دکھاکر اسے فرقہ وارانہ حملہ دینے کی کوشش کی گئی ہے، کیوں کہ ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق، ملزم کار ڈرائیور بھی مسلم ہے۔
سب سے پہلے ہم نے برقعہ پوش مسلم خاتون حادثہ کا ویڈیو جیسے کلیدی الفاظ کی مدد سے گوگل سرچ کیا تو ہمیں یکم مئی 2025 کو 'سراج نورانی' نامی صحافی کے ٹوئیٹر اکاونٹ پر پوسٹ کیا گیا ایک ٹوئیٹ ملا۔ اس میں دی گئی جانکاری کے مطابق، "یہ دلخراش حادثہ 26 اپریل 2025 کو کیرلہ کے ملّاپورم ضلع کے کوٹکّل علاقہ میں پیش آیا۔ تیز رفتار کار کی ٹکر کے نتیجے میں 'بدریہ' نامی خاتون شدید زخمی ہوگئی۔ حادثے کے وقت اس کا بیٹا ساتھ چل رہا تھا، تاہم لڑکا محفوظ ہے۔ بدریہ کو میمس اسپتال میں شریک کرادیا گیا۔"
ان معلومات کی بنیاد پر گوگل سرچ کیا گیا تو ہمیں یکم مئی کو 'دی فری پریس جرنل' نیوز ویب سائیٹ پر اس واقعہ سے متعلق رپورٹ ملی۔ اس رپورٹ کے مطابق، "یہ حادثہ صبح 10 بجے پیش آیا۔ حادثے کے وقت، سواگتاماد علاقہ میں 32 سالہ بدریہ اپنے بیٹے امیر محمد کے ساتھ پلاترہ کے آنگن واڑی کو پیدل جارہی تھی کہ ایک تیز رفتار کار نے پیچھے سے اسے ٹکر دی لیکن اس کا بیٹا کرشماتی طور پر بچ گیا۔"
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہیکہ حادثہ میں بدریہ کے چہرے پر چوٹیں لگی ہیں اور ساتھ ہی انکی ہڈیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے اور اسپتال میں زندگی اور موت کے بیچ جنگ لڑنے کے بعد انہیں جنرل وارڈ منتقل کردیا گیا۔
'این ڈی ٹی وی مراٹھی' نے اس واقعے کی رپورٹ میں کہا ہیکہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہیکہ حادثے کے بعد نونہال اپنی زخمی ماں کو بچانے کیلئے دوڑ پڑتا ہے۔ 'انڈیا ٹوڈے' نے بھی اس واقعہ کو رپورٹ کیا ہے۔
دوران تحقیق حادثے کیلئے ذمہ دار ڈرائیور کی شناخت سے متعلق آن لائین نیوز میڈیا میں ہمیں ایسی کوئی خبر نہیں ملی جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ کار ڈرائیور نے مسلمانوں سے مبینہ نفرت کی وجہ سے برقعہ پوش خاتون کو عمدا ٹکر دی۔ بعض سوشل میڈیا اکاونٹس میں یہ گمان کیا جارہا ہیکہ نیند کے غلبے کی وجہ سے ڈرائیور نے غلطی سے خاتون کو ٹکر دے دی ہو۔ جانچ پڑتال کے دوران ہمیں آلٹ نیوز کی تحقیقی رپورٹ ملی جس میں پولیس حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہیکہ ڈرائیور مسلمان تھا۔
لہذا، ہماری جانچ پڑتال اور دیگر میڈیا رپورٹس سے ملزم ڈرائیور کے غیر مسلم نہ ہونے کی وضاحت ہوگئی ہے، اسلئے یہ واضح ہوتا ہیکہ ایک دلخراش سڑک حادثے کے سی سی ٹی وی فوٹیج کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ دعویٰ گمراہ کن ہے۔

