فیکٹ چیک: وائرل ویڈیو میں فریاد سنانے والی ہندو خاتون کیا 'لو جہاد' معاملہ کی شکار ہے؟ جانئے پوری حقیقت
وائرل ویڈیو میں ہندو خاتون کو مظلوم دکھا کر ‘لو جہاد’ کا دعویٰ کیا گیا، جبکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ خاندانی جائیداد کا تنازعہ ہے، نہ کہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ

Claim :
جہادی عناصر نے 'لو جہاد' کے نام پر ہندو لڑکی کو پھنسا کر اس کے خاندان پر ظلم کیا ہےFact :
وائرل ویڈیو ایک خاندانی جائیداد کے تنازعے سے متعلق ہے، جس میں متاثرہ خاتون نے اپنے چاچا پر جائیداد پر قبضے کا الزام لگایا ہے
حالیہ دنوں میں اتر پردیش میں کروڑوں روپئے کے مذہبی تبدیلی کے ریکیٹ کا انکشاف ہوا۔ اس ریکٹ کے سرغنہ اور نام نہاد صوفی 'چھنگور بابا' المعروف جلال الدین شاہ پر الزام ہے کہ انہوں نے نام نہاد "لو جہاد" کے حربے استعمال کرتے ہوئے ہزاروں غریب اور بیوہ خواتین کا مذہب تبدیل کروایا ہے۔
اتر پردیش کی انسداد دہشت گردی اسکواڈ نے چھنگور بابا کو اس کے ساتھی نیتو نوین روہرا المعروف نسرین کے ساتھ بلرام پور میں اس ریکیٹ کو چلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ اپریل میں، جلال الدین کے بیٹے محبوب اور نسرین کے شوہر نوین روہرا المعروف جمال الدین کو گرفتار کیا گیا، جبکہ اے ٹی ایس مزید 14 افراد کی تلاش میں ہے۔
اس معاملے کے منظر عام پر آنے کے بعد، انتظامہ کے احکامات پر چھنگور بابا کا بنگلہ، جو غیر قانونی طور پر مدھ پور، بلرام پور میں تعمیر کیا گیا تھا، 8 جولائی کو مسمار کردیا گیا۔
اس درمیان سوشل میڈیا پر صارفین ایک متاثرہ ہندو خاتون جو فریاد کر رہی ہے اس کا ویڈیو شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کررہے ہیں کہ " جہادی، 'لو جہاد' کی آڑ میں ہندو لڑکی کو پھنسا کر اس کے خاندان کا ایسا برا حال کررہے ہیں۔"
وائرل پوسٹ کا دعویٰ یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے وائرل ویڈیو کے پوسٹ میں کئے گئے دعوے کی جانچ پڑتال میں پایا کہ یہ معاملہ خاندانی جائیداد کے بٹوارے سے متعلق ہے اور اسے فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ شئیر کیا جارہا ہے۔
سب سے پہلے ہم نے وائرل ویڈیو کے کلیدی فریمس اخذ کرکے اسے گوگل ریورس امیج سرچ ٹول کی مدد سے تلاش کیا تو ہمیں چند ٹوئیٹس ملے جن میں بتایا گیا ہیکہ یہ 'لو جہاد' کا نہیں بلکہ پراپرٹی پر قبضے کا خاندانی معاملہ ہے۔
'جانے بھی دو یارو' نامی ایکس صارف نے وائرل ٹوئیٹ، اور حقیقی ٹوئیٹ اورعلی گڑھ پولیس کی جوابی ٹوئیٹ کے اسکرین شاٹ کو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ " یہ سنگھی ڈھکن زہر کے سوا کچھ نہیں اُگلتے۔ ان کا اپنا بی جے پی کا غنڈہ اصل مجرم ہے، لیکن سنگھی لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے۔"
سب سے پہلے 6 جولائی کو 'رشی ٹھاکر' نامی ایک ایکس صارف نے اس ویڈیو کو ٹوئیٹ کیا تھا اور ساتھ میں وزیر اعلیٰ کے دفتر کے ہیاش ٹیگ کو شامل کرتے ہوئے لکھا تھا " یہ دیکھئے ہمارے ملک کے ایک لیڈر جنہوں نے ان لڑکیوں کی جائیداد پر قبضہ کیا اور ان کو مارا پیٹا۔ یہ لیڈر بی جے پی علی گڑھ کے ٹھاکر کوشل پال سنگھ ہیں۔ وہ پولیس انتظامیہ میں کافی سرگرم ہیں۔ "تصویر محل" کے نام سے ان کا ایک پٹرول پمپ ہے۔ @myogiadityanath سر سے گزارش ہے کہ وہ ان کی مدد کریں۔"
اس ٹوئیٹ کے جواب میں علی گڑھ کی پولیس نے کہا کہ " آبائی جائیداد کی تقسیم کو لے کر چاچا اور بھتیجی کے درمیان تنازعہ ہے، جو معزز سول عدالت میں زیردوراں ہے۔ براہ کرم شکایت کنندہ، معزز عدالت میں چارہ جوئی کرے۔"
وائرل ویڈیو کو شئیر کرنے والے 'سناتنی-6' نامی ایکس یوزر نے علی گڑھ پولیس کی جانب سے وضاحت پر اعتراف کیا کہ انکی ٹوئیٹ میں دیا گیا سیاق وسباق گمراہ کن ہے تاہم، ویڈیو کو ڈیلیٹ نہیں کیا۔
مذکورہ بالا تحقیق سے یہ واضح ہوگیا کہ وائرل ویڈیو میں فریاد کرنے والی ہندو خاتون کو اسکے مبینہ بی جے پی لیڈر چاچا کی جانب سے آبائی جائیداد کی تقسیم کے سلسلے میں تکلیف پہنچائی جارہی ہے جس کی وجہ سے متاثرہ خاتون نے ویڈیو کے ذریعے حکام تک اپنی اپیل پہنچا رہی ہے، لیکن اس ویڈیو کو فرقہ وارانہ رنگ اور 'لو جہاد' کے مبینہ دعوے کے ساتھ سوشل میڈیا پر پھیلایا جارہا ہے۔ لہذا، وائرل ویڈیو میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن پایا گیا۔

