فیکٹ چیک: دی نیویارک ٹائمس کی طرف منسوب ناسا کی جانب سے آیورویدک ڈاکٹر کے انتخاب کی فرضی خبر وائرل
وائرل اخباری تراشے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ناسا نے خلائی تحقیق کیلئے ایک آیورویدک ڈاکٹر کا انتخاب کیا ہے، جسے ’دی نیویارک ٹائمس‘ کی طرف منسوب کیا گیا۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ خبر جعلی ہے اور تراشہ فرضی ہے۔

Claim :
امریکی خلائی ادارے ناسا نے خلائی سفر سے متعلق تحقیق کیلئے بھارت کے آیورویدک ڈاکٹر کو منتخب کیا ہےFact :
ناسا نے آیورویدک ڈاکٹر کے انتخاب سے متعلق کوئی اعلان یا بیان جاری نہیں کیا ہے۔ دی نیویارک ٹائمس کی طرف منسوب خبر فرضی ہے
نو مہینوں تک خلا میں رہنے کے بعد گذشتہ مارچ امریکی خلاباز سنیتا ولیمس اور بیاری بوچ واپس کرہ ارض پر لوٹ آئے۔ یوں تو انٹرنیشنل اسپیش اسٹیشن [آئی ایس ایس] پر ان کا مشن صرف آٹھ دن کا تھا لیکن انکے خلائی جہاز بوئینگ اسٹارلائنر کیلی پسو میں تکنیکی خرابی کے بعد ناسا [ NASA ] نے انکی واپسی کا انتظام کرنے تک انہیں آئی ایس ایس پر قیام کرنے کا حکم دیا۔
خلا میں زیادہ مدت تک رہنے کی وجہ سے خلابازوں کے صحت متاثر ہوتی ہے۔ مائیکرو گریاویٹی کے سبب انکے پٹھے سکڑنے لگتے ہیں، ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور جسمانی رطوبتیں اپنی جگہ بدل لیتی ہیں۔
اس بیچ، سوشل میڈیا پر امریکہ کے معروف اخبار 'دی نیو یارک ٹائمس' کے حوالے سے دی گئی خبر وائرل کی جارہی ہے کہ 'ناسا نے خلائی سفر کے دوران روایتی میڈیسین کے کردار کا جائزہ لینے کیلئے بھارت کے آیورویدک ڈاکٹر کا انتخاب کیا ہے'
امریکی اخبار کے وائرل تراشے میں بتایا گیا ہیکہ 'ڈاکٹر ایژیلاراسن، جنہوں نے آیوروید کے کلینیکل استعمال کو آگے بڑھانے میں ایک دہائی صرف کی ہے، بایومیڈیکل سائنسدانوں اور خلا کے ماہرفزیالوجی کے ساتھ مل کر یہ تحقیق کریں گے کہ آیورویدک جڑی بوٹیاں اور ادویات خلا میں سفر کے دوران جسم پر پڑنے والے دباؤ کو کس طرح کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں دیکھیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے جب وائرل پوسٹ کی جانچ پڑتال کی تو پایا کہ ناسا نے خلائی سفر کے دوران خلابازوں کے جسمانی تغیر سے متعلق تحقیق کیلئے ایسے کسی بھارتی آیورویدک ڈاکٹر کا انتخاب نہیں کیا ہے۔
سب سے پہلے ہم نے وائرل پوسٹ میں دی گئی جانکاری کو لیکر گوگل سرچ کیا۔ اگر ناسا کی جانب سے ایسا کوئی فیصلہ یا انتخاب کیا جاتا تو یہ ایک بڑی خبر بنتی اور بھارت کے معروف میڈیا ادارے نہ صرف اس خبر کو اجاگر کرتے بلکہ اس ڈاکٹر کی تصویر اور اسکی آیوروید میڈیسین میں نمایاں خدمات کو بھی بیان نہیں کرتے۔
گوگل سرچ کے دوران ہمیں 'ڈاکٹر ایژیلاراسن' نامی ایسا کوئی نامور آیوروید ڈاکٹر نہیں ملا اور نہ ہی ایسی کوئی خبر ملی۔
'دی نیو یارک ٹائمس' کے مبینہ مضمون کے تراشے کا مشاہدہ کرنے پر پتہ چلتا ہیکہ یہ ایک فرضی خبر ہے۔ کیوں کہ 'دی یارک ٹائمس' نامی کوئی اخبار نہیں ہے۔ اس مضمون میں اخبار کا نام بھی بدل کر 'دی یارک ٹائمس' اور اس میں بھی یارک کے انگریزی لفظ میں روسی زبان میں استعمال شدہ سیری لیک رسم الخط شامل کی گئی ہے۔
اسکے علاوہ، اس خبر کی ڈیٹ لائین میں تاریخ شامل نہیں کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہیکہ یہ خبر ہیوسٹن، ٹیکساس کی ہے جبکہ 'ناسا' کا صدر دفتر واشنگٹن ڈی۔سی۔ میں واقع ہے۔
یہاں 'دی نیویارک ٹائمس' اخبار اور فرضی تراشے کا موازنہ کریں۔
ساتھ ہی مضمون میں بے شمار املا اور تحریری غلطیوں کے علاوہ ناسا کے حکام کے فرضی نام شامل کئے گئے ہیں۔ اسکے علاوہ، ناسا، کے ہیلتھ ڈیویژن کا نام 'ہیومن ہیلتھ اینڈ پرفارمینس ڈائریکٹوریٹ' ہے۔
مزید تحقیق کرنے پر ہمیں پریس انفارمیشن بیورو [پی آئی بی] کا فیکٹ چیک ٹوئیٹ ملا جس میں واضح کردیا گیا ہیکہ سوشل میڈیا پر وائرل اخباری مضمون کا تراشہ فرضی ہے۔ پی آئی بی نے یہ بھی بتایا کہ 'وائرل تصویر "مارف کی گئی ہے" اور "دی نیویارک ٹائمس نے کبھی بھی ایسی کوئی خبر شائع نہیں کی ہے۔
اںٹرنیٹ پر حقیقی اخبار کی طرح فرضی مضمون تیار کئے جاسکتے ہیں۔ فرضی نیوز پیپر کلپ تیار کرنے کیلئے فوڈے ڈاٹ کام جیسے ویب سائیٹس استعمال کئے جاتے ہیں۔
تحقیق اور میڈیا رپورٹس سے واضح ہوگیا کہ امریکہ کے خلائی ادارہ ناسا نے خلائی سفر کے دوران خلابازوں کے جسمانی تغیر سے متعلق پتہ لگانے کیلئے بھارت کے کسی بھی آیورویدک ڈاکٹر کا انتخاب نہیں کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل تصویر جعلی ہے لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ فرضی پایا گیا۔