فیکٹ چیک: ڈبروگڑھ کی تاریخی مسجد کو "ناجائز قبضہ" بتاکر شہید کرنے کا دعویٰ گمراہ کن ثابت ہوا
ڈبروگڑھ کی 128 سالہ جامع مسجد کو "ناجائز قبضہ" قرار دے کر منہدم کرنے کا دعویٰ گمراہ کن پایا گیا۔ مسجد کمیٹی اور انتظامیہ کی باہمی رضامندی سے یہ قدم شہر کے سیلابی مسئلے کے حل کے لئے اٹھایا گیا۔

Claim :
ڈبروگڑھ کی چولکھوا جامع مسجد کو غیرقانونی قبضے کی وجہ سے منہدم کیا گیاFact :
ضلعی انتظامیہ اور مسجد کمیٹی کی باہمی رضامندی سے جامع مسجد شہید کی گئی۔ شہر کے سیلابی مسائل کے حل کے لیے نئی نکاسی کے نظام کی تعمیر کے تحت یہ اقدام کیا گیا
حالیہ دنوں میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو خبردار کیا کہ وہ 'سترا' (مقامی سنتوں کے مذہبی اداروں) کے قریب مسجدیں تعمیر کرنے یا وہاں گائے کا گوشت کھانے جیسے کاموں سے پرہیز کریں اور مقامی آباد کے ساتھ تصادم کے حالات پیدا نہ کریں۔
انہوں نے اقلیتوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ سترا کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش نہ کریں، مقامی باشندوں کی روایات اور رسم و رواج کا احترام کریں، اور کسی بھی قسم کا تنازع کھڑا نہ کریں۔
اسی بیچ، سوشل میڈیا پر ایک شاندار مسجد کے شہید کئے جانے کا ویڈیو شئیر کرتے ہوئے صارفین دعویٰ کررہے ہیں کہ "ڈبروگڑھ کے چولکھوا میں واقع 128 برس پرانی جامع مسجد کو آج منہدم کر دیا گیا۔ حسبِ معمول، یہ مسجد نیشنل ہائی وے 37 پر ناجائز قبضہ کر کے تعمیر کی گئی تھی۔ ضلعی انتظامیہ کو پُرامن طریقے سے کارروائی انجام دینے پر داد دینی چاہئے۔ ایک اور مسجد، لالوکا گاؤں کی مسجد بھی اے ٹی روڈ پر قبضہ کیے ہوئے ہے، جو ڈبروگڑھ یونیورسٹی روڈ کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔"
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں دیکھیں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں ملاحظہ کریں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے وائرل پوسٹ میں کئے گئے دعوے کی جانچ پڑتال کے بعد پایا کہ آسام کی شاہراہ پر واقع قدیم مسجد کو "ناجائز قبضہ" قراردیکر منہدم کئے جانے کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
سب سے پہلے ہم نے موزوں کیورڈس کی مدد سے گوگل سرچ کیا تو ہمیں کچھ ٹوئیٹ اور نیوز آرٹیکلس ملے جن میں اس انہدامی کارروائی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
شمال مشرقی خطے کے معروف اخبار 'دی آسام ٹری بیون' نے 26 جون 2025 کو اس انہدامی کارروائِی کا ویڈیو ٹوئیٹ کرتے ہوئے لکھا کہ " چولکھوا میں مسلم برادری نے شہر کے وسیع تر مفاد میں اپنی 135 سالہ تاریخی جامع مسجد کے ایک حصے کو منہدم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے قربانی، فہم و فراست اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ "
آسام کے ایک اور میڈیا ادارے 'دی سینٹی نیل آسام' نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ڈبروگڑھ کے چولکھوا کی 128 سالہ جامع مسجد کو کمیٹی کی منظوری کے بعد منہم کردیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے خطے میں مصنوعی سیلاب کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے یہ اہم قدم اٹھایا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہیکہ، مسجد کے انہدام کے بعد، سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر کچھ لوگ گمراہ کن جانکاری پھیلارہے تھے۔ عوام میں پیدا کی گئی الجھن کو دور کرنے کیلئے ضلعی انتظامیہ اور مسجد کی کمیٹی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے واضح کیا کہ "مسجد کو زبردستی خالی نہیں کروایا گیا بلکہ باہمی رضامندی اور قانونی زمین کے حصول کے عمل کے تحت منہدم کیا گیا۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ فیصلہ شہر کے وسیع تر مفاد میں کیا گیا، کیونکہ نیا ڈرینج سسٹم ڈبروگڑھ کے سیلاب سے بچاؤ کے منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے۔"
مزید سرچ کرنے پر ہمیں 'فکروخبر' نامی اردو نیوز ویب سائیٹ کی رپورٹ ملی جس میں بتایا گیا ہیکہ، "ڈبرو گڑھ میونسپل کارپوریشن کے بورڈ کمشنر جئے وکاس نے دعویٰ کیا کہ ڈبرو گڑھ میں مصنوعی سیلاب کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے، ضلع انتظامیہ نے مسجد کو منہدم کر دیا تاکہ بوکول سے سیسا پل تک ایک بڑا نکاسی کا نظام بنایا جا سکے۔"
بورڈ کمشنر جئے وکاس نے یہ بھی کہا کہ "مسجد کے انہدام کے بعد، ایک طبقہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلا رہا ہے کہ مسجد کو ضلعی انتظامیہ نے زبردستی گرایا ہے، تاہم، ایسا نہیں ہے، کمیونٹی نے ہمارا مکمل ساتھ دیا۔"
مذکورہ بالا تحقیق اور میڈیا رپورٹس کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ ڈبروگڑھ میں مصنوعی سیلاب کے مسئلے کو حل کرنے اور شہر کے وسیع تر مفاد کے لئے مقامی مسلمانوں نے ضلعی انتظامیہ کو قدیم جامع مسجد کی شہادت کی اجازت دی ہے۔ لہذا، اس تاریخی مسجد کو 'ناجائز قبضہ' کے سبب منہدم کئے جانے کے وائرل دعوے گمراہ کن پائے گئے۔