فیکٹ چیک: ملک شام میں 'مسلمانوں کو زمین پر رینگنے' کیلئے مجبور کئے جانے کے ویڈیو کی جانئے پوری حقیقت
ملک شام میں حالیہ دنوں میں علوی جنگجووں کی جانب سے پٹرول پولیس پر مہلک حملہ کے بعد فوجی آُپریشن کے دوران فوجی خلاف ورزیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ویڈیو گمراہ کن دعوووں کے ساتھ وائرل کئَے جارہے ہیں۔

Claim :
شام میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کررہا ہےFact :
وائرل ویڈیو میں معزول صدر کے حامی جنگجووں کو قیدی بناکر انکے ساتھ غیر انسانی سلوک دکھایا گیا ہے
معزول صدر بشار الاسد کی سابقہ حکومت کی باقیات کے خلاف ملک کے مغربی ساحلی علاقوں میں پانچ روزہ پُرتشدد شامی فوجی آپریشن آج اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ لاذقیہ اور طرطوس شہروں میں فوجی کارروائی اور اسد کے حامی جنگجووں کے ساتھ جھڑپوں میں سینکڑوں افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ہے۔ ملک شام میں خوں ریزی معاملات کے نگراں کار ادارہ کے مطابق، کم از کم 779 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
شام کی احمد الشرع کی قیادت والی عبوری حکومت کے بندوق برداروں پر الزام ہیکہ انہوں نے سیکورٹی پٹرول ٹیم پر اقلیتی علوی طبقہ کی جانب سے گھات لگاکر کئے گئے مہلک حملے کے بعد اقلیتی اراکین کے خلاف انتقامی کارروائیں انجام دی۔ دنیا بھر سے ملک میں جاری تشدد کارروائیوں پر تنقیدوں کی بوچھار کے بعد عبوری صدر احمد الشرع نے بیان دیا کہ وہ ایک 7۔رکنی غیرجانبدارانہ کمیٹی تشکیل دیں گی جو ان ماورائے عدالت قتل کے معاملوں کی جانچ کرکے خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچائیگی۔
اس درمیان سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے۔ اس ویڈیو کے ساتھ شامل کیپشن میں دعویٰ کیا گیا ہیکہ مبینہ طور پر شام کے باشندوں کو پیٹ کے بل ریگنے اور اور معزول صدر بشار الاسد سے انکی وابستگی کے حوالے سے انہیں کتّوں کی طرح بھونکنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
واٹس ایپ پر وائرل اس ویڈیو کے ہندی کیپشن میں یہ تحریر پائی گئی۔
دعویٰ:
" सीरिया में अराजकता बढ़ने के साथ ही मुसलमान दूसरे मुसलमानों को कुत्तों की तरह रेंगने और भौंकने पर मजबूर कर रहे हैं।
सिया बनाम सुन्नी "
ترجمہ:
سیریا میں افراتفری مچنے کے بعد چند مسلمان دوسرے مسلمانوں کو زمین پر رینگنے اور کتوں کی طرح بھونکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ شیعہ اور سنی فرقوں کا معاملہ ہے ۔"
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں دیکھیں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں ملاحظہ کریں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے اپنی جانچ پڑتال میں پایا کہ وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن ہے۔
ملک شام میں تشدد کیسے پھوٹ پڑا؟
سب سے پہلے ہم نے پرتشدد شامی فوجی آپریشن کی وجہ سے متعلق موزوں کیورڈس کی مدد سے گوگل سرچ کیا تو ہمیں AP News ڈاٹ کام پر 7 مارچ 2025 کا مضمون ملا جس میں بتایا گیا ہیکہ لاذقیہ شہر کے قریب جبلۃ ٹاون میں علوی بندوق برداروں نے گھات لگاکر جنرل سیکورٹی ڈائریکٹوریٹ کی پولیس فورس پر حملہ کیا جس کے نیتجے میں 13، اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ جس کے بعد حفاظتی دستوں نے اسد حکومت کے 28 حمایتیوں اور 3 شہریوں کو ہلاک کردیا۔ ان جھڑپوں کی رپورٹنگ کے دوران الجزیرہ کا کیمرہ میان ریاض الحسین زخمی ہوگیا۔
فرانس کے 'لے موند' اخبار کے مطابق، مارچ کو اسد کے حامی جنگجووں نے جبلۃ ٹاون کے بیت انا گاوں میں پٹرول فورس کے اہلکاروں پر گھات لگا کر مہلک حملہ کیا جس کے نتیجے میں 13 اہلکار فوت اور کئی دیگر زخمی ہوگئے۔
فرسٹ پوسٹ نے بھی اس واقعہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اپنے آفیشئل یوٹیوب چینل پر شام میں جھڑپ سے متعلق رپورٹ اپلوڈ کی تھی۔
اس وارننگ کے بعد، شامی حکومت نے شمال مغربی ملک میں اسد کے حامی بندوق برداروں پر فضائی اور زمینی حملے کئے۔ شامی نیٹ ورک برائے انسانی حقوق [ایس این ایچ آر] کے مطابق، اس کارروائی کے دوران، الاذقیہ کے المختاریہ علاقہ میں انتقامی کارروائیوں میں درجنوں ہلاکتیں ہوئی ہیں،۔ ایک ویڈیو میں قریب 40 شہریوں کو ہلاک کردیا گیا۔ اس بیچ پرتشدد کارروائیوں کے کئی ایک ویڈیو منظرعام پر آئے تاہم، یہ کہنا مشکل ہیکہ یہ ویڈیوس کب اور کہاں شوٹ کئے گئے۔
پھر ہم نے وائرل ویڈیو سے کلیدی فریمس اخذ کئے اور انہیں گوگل ریورس امیج سرچ کی مدد سے تلاش کیا تو ہمیں ترکیہ کی انگریزی نیوز ویب سائیٹ haberler ڈاٹ کام پر وائرل ویڈیو سے متعلق ایک مضمون ملا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ الاذقیہ کے ویڈیو میں سابقہ اسد حکومت کے دفادار جنگجووں کو شامی فوج نے قیدی بناکرانہیں زمین پر پیٹ کے بل رینگنے کیلئے مجبور کیا۔ اسکے علاوہ یہ بھی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہیکہ شام کی فوج نے معزول حکومت کے درجنوں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے ویڈیو سوشل میڈیا پر شئیر کئے۔