فیکٹ چیک:اترپردیش کے مسلم خاندان میں گھریلو تشدد کا ویڈیو فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ وائرل
اترپردیش کے ہاپوڑ میں مسلم شوہر کے اپنی بیوی سے مارپیٹ کے پرانے ویڈیو کو ہندو-مسلم رنگ دے کر سوشل میڈیا پر گمراہ کن دعویٰ کے ساتھ وائرل کیا جارہا ہے

Claim :
مسلم شخص اپنی ہندو بیوی کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے۔ متاثرہ عورت کا نام نندنی راؤ جبکہ مرد کا نام آرین خان ہےFact :
وائرل ویڈیو اترپردیش کے ہاپوڑ کا پرانا واقعہ ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا جوڑا پیدائشی طور پر مسلمان ہے۔
گذشتہ مہینہ اترپردیش کے متھرا شہر کی ایک خاتون رانی سینی نے اپنے شوہر اور سسرال والوں کے خلاف گھریلو تشدد کا مقدمہ درج کرایا ہے۔ خاتون کا الزام ہے کہ اسے بیٹی کی دسویں جماعت کے بعد تعلیم جاری رکھنے کی اجازت مانگنے پر مارا پیٹا گیا۔ پولیس کے مطابق خاتون نے الزام لگایا ہے کہ اسے اس وجہ سے مارا پیٹا گیا کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی دسویں جماعت کے بعد بھی تعلیم جاری رکھے۔
گورا نگر کالونی کی رہنے والی رانی سینی نے بتایا کہ ان کی شادی 2008 میں ہیمنت سینی سے ہوئی تھی اور تب سے ان کا شوہر انہیں ہراساں کر رہا تھا، لیکن اپنے تین بچوں کی خاطر وہ سب کچھ برداشت کرتی رہیں۔
اس بیچ، گھریلو تشدد کا ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل کیا جارہا ہے، اور اس ویڈیو کو شئیر کرتے ہوئے صارفین دعویٰ کررہے ہیں کہ 'کیسے ایک مسلم مرد اپنی ہندو بیوی کو زدوکوب کررہا ہے۔'
ایک ایکس یوزر نے وائرل ویڈیو کے ساتھ شامل کیپشن میں یہ بھِی دعویٰ کردیا کہ مظلوم خاتون کا نام نندنی راؤ اور مرد کا نام آرین خان ہے۔
وائرل پوسٹ کو اب تک 25 لاکھ مرتبہ دیکھا قریب 8 ہزارمرتبہ دوبارہ شئیر کیا گیا ہے۔ چونکہ وائرل پوسٹ کا متن کافی طویل ہے، اسلئے ہم نے اسکے کچھ حصے یہاں قلمبند کئے۔
"31 دسمبر 2024 کو مغربی بنگال کے سودپور کی 25 سالہ ہندو خاتون نندنی راؤ کو آرین خان نے ایونٹ مینجمنٹ میں ایک ناقابل انکار نوکری کا جھانسہ دے کر دھوکہ دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک بھیانک خواب بن کر رہ گیا جو 7 جون 2025 تک جاری رہا۔ اس دوران، نندنی کو ہاوڑہ کے ڈومجور میں ایک فلیٹ میں قید رکھا گیا، جہاں اسے آرین خان، اس کی ماں شویتا خان، اور خاندان کی ایک نابالغ رکن زویہ خان کی جانب سے ناقابلِ تصور اذیت اور جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔ 11 جون 2025 کو آرین خان کو کولکتہ کے گولف گرین علاقے سے گرفتار کیا گیا، جبکہ شویتا خان کو علی پور سے حراست میں لیا گیا۔ قومی کمیشن برائے خواتین (NCW) نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے مغربی بنگال کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سے کارروائی کی رپورٹ طلب کی ہے۔"
قارئین کیلئے نوٹ: اس ویڈیو میں دکھایا گیا منظر دل دہلا دینے والا ہے۔ حساس ناظرین احتیاط سے دیکھیں۔
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں دیکھیں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ یہاں ملاحظہ کریں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے وائرل پوسٹ میں کئے گئے دعوے کی جانچ پڑتال کے بعد پایا کہ اترپردیش کے ہاپوڑ ضلع کے گھریلو تشدد معاملے کو فرقہ وارانہ بیانئے کے ساتھ سوشل میڈیا پر شئیر کیا جارہا ہے۔
ہم نے وائرل ویڈیو کے کلیدی فریمس کی مدد سے گوگل ریورس امیج سرچ کیا تو ہمیں کچھ سوشل میڈیا پوسٹس ملے جن میں اس واقعہ سے متعلق جانکاری دی گئی ہے۔
19 جون کی ٹوئیٹ میں گھریلو تشدد کا ویڈیو شئیر کرتے ہوئے بتایا گیا ہیکہ، "ایک ظالم شخص کی جانب سے خاتون پر بے رحمی سے تشدد کرنے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔ معاملہ اتر پردیش کے ہاپوڑ نگر کوتوالی کے سکندر گیٹ چوکی علاقے کی موتی کالونی کا بتایا جا رہا ہے۔"
'سمجھو بھارت' نامی یوٹیوب چینل پر بھی اس بارے میں رپورٹ کرتے ہوئے بتایا گیا ہیکہ، "اتر پردیش کے ہاپوڑ میں پیش آنے والے اس واقعے نے پوری انسانیت کو شرمسار کردیا ہے۔ ایک شوہر نے اپنی بیوی کو بچوں کے سامنے بے رحمی سے پیٹا۔ ویڈیو میں عورت ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک مانگتی ہے، بچے چیختے چلاتے دیکھے گئے، مگر وہ درندہ صفت شخص مارپیٹ سے باز نہیں آتا۔"
ہندی نیوز پورٹل 'لائیو ہندوستان' کی رپورٹ کے مطابق، 6 مہینے کے پرانے ویڈیو کو وائرل کرتے ہوئے اس سے سماج میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کی غرض سے اسے سوشل میڈیا پر شئیر کرنے والوں کے خلاف ہاپوڑ کی پولیس سخت کارروائی کررہی ہے۔
اس میڈیا رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ "سکندر گیٹ چوکی علاقے کی خاتون نے بتایا کہ تقریباً چھ ماہ قبل اس کا شوہر سے کسی بات کو لے کر جھگڑا ہو گیا تھا۔ اس دوران شوہر نے گھر میں اس کے ساتھ مارپیٹ کی تھی۔اسی دوران کسی نے مارپیٹ کا ویڈیو بنا لیا تھا۔ بعد میں میاں بیوی کے درمیان صلح ہو گئی، اور وہ تب سے اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہے۔ کچھ دن پہلے آواس وکاس کالونی میں رہنے والے اسکے نندوئی جنید نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردیا۔ "
کوتوالی انچارج انسپکٹر منیش پرتاپ سنگھ نے بتایا کہ اس معاملے میں خاتون کے نندوئی سمیت کئی دیگر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گمراہ کن پوسٹس کرنے والے دیگر صارفین اور اکاؤنٹس کی شناخت کی جا رہی ہے، جن کے خلاف بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اس پوسٹ میں علاقہ کی جانکاری کی مدد سے جب ہم نے ضلعی پولیس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر سرچ کیا تو ہمیں ہاپوڑ پولیس کا ایکس پوسٹ ملا، جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ گھریلو تشدد کے وائرل ویڈیو میں دکھائے گئے میاں بیوی پیدائشی مسلم ہیں۔ اور اس مارپیٹ کے پرانے ویڈیو کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ہندو-مسلم زاوئے کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ ہاپوڑ کی پولیس نے اس ویڈیو سے وابستہ فرقہ وارانہ دعووں کو پوری طرح سے مسترد کردیا۔
تحقیق اور میڈیا رپورٹس کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ گھریلو تشدد کا وائرل ویڈیو اترپردیش کے ہاپوڑ کا پرانا واقعہ ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا جوڑا پیدائشی مسلم ہے۔ پولیس کی کونسلنگ کے بعد دونوں میاں بیوی پھر سے دوبارہ ساتھ رہنے لگے ہیں۔ گھریلو تشدد کے پرانے ویڈیو کو فرقہ وارانہ رنگ دیکر دوبارہ وائرل کیا جارہا ہے۔ لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن پایا گیا۔