فیکٹ چیک: بنگلہ دیشی اساتذہ کے مظاہرے کا ویڈیو مغربی بنگال میں بابری مسجد کے حمایتیوں کی جھڑپ کے گمراہ کن دعوے کے ساتھ وائرل
مرشدآباد میں مجوزہ ’بابری مسجد طرز‘ کی مسجد کے حوالے سے پولیس اور مظاہرین کی جھڑپ کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے تاہم، تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ویڈیو بنگلہ دیش میں پرائمری اساتذہ کے احتجاج کا ہے۔

Claim :
مغربی بنگال میں بابری مسجد کے حمایتیوں اور پولیس کے بیچ پرتشدد جھڑپ ہوئی اور پولیس نے انکے خلاف طاقت کا استعمال کیاFact :
بنگلہ دیش میں پرائمری اساتذہ اور پولیس کی جھڑپ کا پرانا ویڈیو مرشدآباد کی کشدگی کے بیانئے کے ساتھ وائرل کیا جارہا ہے
مغربی بنگال کے ضلع مرشدآباد میں مجوزہ ’بابری مسجد طرز‘ کی مسجد کی جگہ پر سیکڑوں مسلمانوں نے پہلی جمعہ کی نماز ادا کی۔ صبح سے آس پاس کے گاوں والے کھیتوں کے راستے نماز گاہ پہنچ گئے تھے۔
ترنمول کانگریس سے معطل رکن اسمبلی ہمایوں کبیر نے ایودھیا کی بابری مسجد کی 6 دسمبر 1992 کی شہادت کی تاریخ کے دن بنگال کے بیلڈانگہ میں اسی نام کی مسجد کی بنیاد رکھی تھی۔
علاقے میں پہلے سے موجود کشیدگی کے باعث سخت سیکیورٹی انتظامات کے درمیان نماز ادا کی گئی۔ اسی بیچ، مسلم مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپ اور احتجاجیوں کے خلاف آنسو گولے اور لاٹھی چارج کے استعمال کا ویڈیو 'بن گئی بابری مسجد، اب ملا سکون' کے طنزیہ ریمارک کے ساتھ شئیر کرتے ہوئے دعویٰ [آرکائیو لنک] کیا جارہا ہیکہ بابری مسجد کی طرز پر تعمیر کی جارہی مسجد کے حوالے سے پولیس اور مظاہرین میں جھڑپ ہوئی اور پولیس کو انکے خلاف طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔
وائرل پوسٹ کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔
وائرل پوسٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیکھیں۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم نے وائرل پوسٹ میں شئیر کئے گئے ویڈیو کی جانچ پڑتال میں پایا کہ یہ ویڈیو مغربی بنگال کی پولیس اور بابری مسجد کے حمایتیوں کی مبینہ جھڑپ کا نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے مظاہرے کا پرانا ویڈیو ہے۔
سب سے پہلے ہم نے وائرل ویڈیو کے کلیدی فریمس اخذ کئے اور انہیں ایک کے بعد ایک کرکے گوگل ریورس امیج سرچ ٹول کی مدد سے تلاش کیا تو ہمیں فیس بک کا 19 نومبر کا پوسٹ ملا، جس میں شامل تبصروں سے پتہ چلتا ہیکہ یہ ویڈیو بنگلہ دیش کا ہے۔ یہاں وائرل ویڈیو اور بنگلہ دیش کے ویڈیو میں ایک شخص کو بنگلہ دیش کا پرچم لہراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
پھر ہم نے بنگالی زبان میں موزوں کیورڈس کی مدد سے گوگل سرچ کیا تو ہمیں 9 نومبر کا بنگلہ دیش کے نیوز پورٹل 'سوموئے نیوز ٹی وی' پر ایک نیوز آرٹیکل ملا جس میں بتایا گیا ہیکہ "پرائمری ٹیچروں نے اپنے مطالبات کو لیکر ملک بھر میں غیر معینہ مدت کی ہڑتال شروع کردی ہے۔"
بنگلہ دیش کے 'ای ٹی وی' 8 نومبر 2025 کے بلیٹن میں ڈھاکہ کے شاہ باغ علاقہ میں مظاہرے کے دوران پولیس کی احتجاجی اساتذہ پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ 2.17 کے ٹائم اسٹامپ پر آپ وائرل ویڈیو میں دکھائی گئی ٹراویل بس، مظاہرین اور ایک بنگالی زبان میں سبز رنگ کا پلے کارڈ دیکھ سکتے ہیں۔
ایک اور معروف ٹی وی نیوز چینل، 'اے ٹی این بانگلہ' نے بھی پرائمری ٹیچروں کے مظاہرے اور پولیس کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے طاقت کے استعمال کی رپورٹ اپنے یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کی ہے۔
تحقیق اور میڈیا رپورٹس سے واضح ہوگیا کہ مغربی بنگال کے مرشدآباد میں مجوزہ ’بابری مسجد طرز‘ کی مسجد کی تعمیر کے حوالے سے علاقہ میں کشیدگی ضرور پائی جاتی ہے تاہم حالیہ دنوں میں اس پیمانے پر مسجد کے حمایتیوں اور پولیس کے بیچ پرتشدد ہجوم کا واقعہ ابھی تک پیش نہیں آیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو دراصل بنگلہ دیش کی جھڑپ کا ہے جسے بابری مسجد کے حمایتیوں پر پولیس کی کارروائی کے گمراہ کن دعوے کے ساتھ شئیر کیا جارہا ہے۔ لہذا، وائرل پوسٹ میں کیا گیا دعویٰ گمراہ کن پایا گیا۔

