Fact Check: گوموتر سے بنا سافٹ ڈرنک تھامے سادھو کی تصویر کی جانئے پوری حقیقت
سوشل میڈیا پر ایک سادھو کی تصویر شئیر ہورہی ہے جس میں اس شخص کو پیلے رنگ کا کیان پکڑے ہوئے دکھا کر دعویٰ کیا جارہا ہیکہ یہ گوموتر کا کولہ ہے اور یہ میڈ ان انڈیا ہے۔

Claim :
بھکتوں کیلئے سو فیصدی خالص گوموتر کولہ، محدود اسٹاکFact :
وائرل تصویر اے آئی ٹکنالوجی سے بنائی گئی ہے اور حقیقت میں ایسا کوئی سافٹ ڈرنک نہیں ہے
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکناکلوجی مدراس، آئی آئی ٹی۔ ایم کے ڈائریکٹر وی کاماکوٹی کے گائے کے پیشاب کے طبی فوائد سے متعلق دئے گئے بیان سے تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ مویشیوں سے متعلق منائے جانے والے پونگل کے تہوار پر 'گو سمرکشنا سالہ' کے ایک پروگرام میں تقریر کے دوران یہ ریمارک کیا گیا۔
کاما کوٹی نے تمل میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ گوموتر پینے سے "ایک شخص کی بخار 15 منٹ میں اتر گئی"۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ "اینٹی بیکٹیریل، اینٹی فنگل، ہاضمے کے مسائل، اور آنتوں کی گڑبڑی کی شکایت اور اس طرح کے بہت سے مسائل کے لئے گومتربہت ہی کارگر دوا ہے۔"
تاہم، مختلف سیاسی گوشوں سے اس متنازع ریمارک پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ کانگریس کے ایم ہی کارتی چدمبرم نے اپنی ٹوئیٹ میں انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا: " آئی آئی ٹی مدراس کے ڈائریکٹر کا یوں جعلی سائنس کی تشہیر کرنا انہیں زیبا نہیں دیتا۔"
اس بیچ، ایک فیس بک پوسٹ وائرل ہورہا ہے جس میں ایک سادھو نما شخص کو پیلے رنگ کا 'کاو یورین کولہ' نامی سافٹ ڈرنک کیان کو تھامے دکھایا گیا ہے اور ساتھ ہی اس کیان پر 'میڈ ان انڈیا' بھی تحریر کیا گیا ہے۔
وائرل ویڈیو کا لنک یہاں اور آرکائیو لنک یہاں ملاحظہ کریں۔
یہاں دیکھیں، وائرل پوسٹ کی اسکرین شاٹ۔
فیکٹ چیک:
تلگو پوسٹ کی فیکٹ چیک ٹیم کی جانچ پڑتال سے معلوم ہوا کہ 'کاو یورین کولہ' نامی ایسا کوئی سافٹ ڈرنک نہیں پایا جاتا اور یہ تصویر مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی ہے۔
ہم نے تحقیق کے آغاز کے مناسب کیورڈس کی مدد سے گوگل سرچ کیا تو ہمیں 2009 کی ایک نیوز رپورٹ ملی جس میں کہا گیا تھا کہ سخت گیر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس گائے کے پیشاب سے سافٹ ڈرنک بنانے کی تیاری کررہی ہے۔ عالمی خبررساں ادارہ روئیٹرس نے بتایا کہ ہندو تنظیم گوموتر کی مدد سے ذیابیطس اور کینسر جیسی بیماریوں سے لڑنے کیلئے فی الحال اس انوکھے سافٹ ڈرنک کے تجربات کررہی ہے تاہم اس پراڈکٹ کے کمرشئیل ریلیس سے متعلق کوئی تاریخ متعین نہیں کی ہے۔
پھر ہم نے گوگل ریورس امیج سرچ ٹول کا سہارا لیا، تاہم ہمیں سوائے اسی قسم کے دعووں کے علاوہ حقیقی تصویر نہیں ملی۔ وائرل تصویر کا غور سے مشاہدہ کرنے پر پتہ چلتا ہیکہ یہ حقیقی نہیں ہوسکتی، کیوں کہ اسکے ماتھے پر نظر آنے والا لال اور سفید رنگ کا تلک غیرمعمولی نظر آرہا ہے۔ ان رنگوں کی آمیزش کا تلک آندھرا پردیش کے تروپتی کے پجاری لگاتے ہیں اور وہ بھِ اتنا پھیلا ہوا نہیں ہوتا اور اس تصویر کو شمالی ہند کے ریاست کے باشندے کے طور پر پیش کیا گیا ہے تو ان علاقوں میں لال اور زرد رنگ کے تلک کا چلن ہے۔
اپنی تحقیق جاری رکھتے ہوئے ہم نے اس وائرل تصویر کواے آئی ٹکنالوجی سے تیار کردہ تصاویر کی جانچ کرنے والے ہائیو ماڈریشن ٹول سے پرکھا تو معلوم ہوا کہ 99.6 فیصد وائرل تصویر اے آئی سافٹ وئیر سے بنائی گئی ہے۔
اسکے بعد ہم نے اے آئی امیج ڈٹیکٹر ٹول پر اپلوڈ کرکے چیک کیا۔ اس ٹول کے تجزیہ میں وائرل تصویر کے مصنوعی ذہانت سے تیار کئے جانے کا امکان 90.23 پایا گیا۔
ہم نے اے آئِی مواد کی جانچ کرنے والے ٹولس کی مدد سے جانچ پڑتال کی تو پایا کہ سوشل میڈیا پر سادھو جیسا دکھنے والے شخص کی گومتر سے بنے کولہ کی تشہیر کی وائرل تصویر اے آئی ٹکنالوجی سے سے بنائی گئی ہے اور اسے فرضی دعوے کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر بڑَے پیمانے پر شئیر کیا جارہا ہے۔

